حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی فضیلت

ملفوظات کتاب میں شامل ہو گیا

میرے بھائیو بزرگو اور دوستو: اللہ کا لاکھ لاکھ کرم اور احسان ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ اور ہم کو اللہ کا نام لینے کے لئے اللہ کے پیارے پیارے ناموں کا ذکر کرنے کے لئے اس کی تحمید، تہلیل کے لئے ہم کو اکٹھا کیا ہے یہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور یہ ہدایت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے بہت اعلی نعمت ہے ہدایت والی نعمت ہے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اللہ تعالی کا تعلق نصیب ہوتا ہے اللہ اور اس کے محبوب کی نسبت نصیب ہوتی ہے اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ پچھلی رات کو صحابہ کے مناقب بیان ہو رہے تھے نبی ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے راستہ پالو گے ہدایت یافتہ بن جاؤ گے ہدایت مل جائے گی۔


عمر رضی اللہ عنہ نے حمص کا گورنر عمیر ابن سعد رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا جیسے پہلے عرض کیا تھاصحابہ تو صحابہ تھے ایک سے ایک بڑھ کر تھا مناقب میں۔ عمر صحابہ کرام کے تقوی کو ایمان اللہ کی ذات پر یقین کو دیکھ کر گورنر بنایا کرتے تھے۔

عمیر بن سعد کے بارے میں آتا ہے کہ یہ جیسے کہتے ہیں فلاں مسجد کا گھونٹا ہے عمیربن سعد کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ محراب کا کھونٹا ہے مسجد کے محراب کا کھونٹا توی کے لحاظ سے اعلی مقام پر فائز تھے ایمان کے لحاظ سے اعلی مقام پر اعمال کے لحاظ سے اعلی مقام پر فائز تھے اور بہت رونے والے تھے ہمارے بزرگوں میں بھی دیوبند کے علماء میں اکابرین میں بھی ایسے لوگ گزرے ہیں مولانا فقیر محمدؒ ، حضرت تھانویؒ کے خلفاء میں سے تھے اور بڑے رونے والے تھے بات بات پہ ان کو رونا آتا تھا رونے کی وجہ سے ان کا نام مولانا بکاء پڑ گیا تھا رونے والا مولانا بہت روتے تھے تو یہ بھی بڑے رونے والے صحابی تھے اللہ پاک نے بڑا مقام دیا تھا عمر نے ان کو حمص کا گورنر بنایا تو ایک سال تک انھوں نے گورنری کی لیکن ایک سال میں عمر نے کوئی چیک وصول نہیں کیا ان کی طرف سے کوئی پیغام بھی ان کی طرف سے نہیں آیا۔ عمر نے ان کو مدینہ منورہ بلایا مدینہ منورہ میں حاضر ہوں اور خلیفہ کو اپنی پوزیشن بتائیں کہ ایک سال پورا گزر گیا ہے آپ کی طرف سے کوئی پیغام کوئی چیک نہیں آیا اور اپ کی طرف سے کوئی خط نہیں آیا پیغام نہیں آیا تو عمیر بن سعد حمص سے پیدل روانہ ہو گئے یہ گورنر تھے سواری نہیں تھے پیدل روانہ ہو گئے مدینہ منورہ ایک تھیلا اٹھایا وہ کاندھے پر رکھا تھیلے میں ایک پانی پینے کا برتن ایک کھانا کھانے کا برتن اس زمانے میں برتن کیا ہوتے تھے اور ایک پاس لاٹھی تھی جس پر ٹیک بھی لگاتے تھے اور اگر کوئی دشمن راستے میں آ جاتا تھا کوئی جانور اسے بطور ہتھیار بھی استعمال کرتے تھے کھدڑ کا معمولی سا لباس تھاحمص سے پیدل روانہ ہوئے کتنے عرصے میں پہنچے ہوں گے کتنی مشقت ہوئی ہو گی کھدڑکا لباس، غربت سارے چہرے اور جسم سے عیاں تھی نحیف اور ناتواں جسم یہ گورنر ہے حمص کا پیدل روانہ ہوئے مدینہ منورہ کی طرف میدنہ منورہ پہنچے عمر کی نظر ان پر پڑی اور دیکھا کہ پراگندہ حال، بال گرد آلود،چہرہ گرد آلود، نحیف اور کمزور جسم، لاٹھی پر ٹیک لگا کر عمر کے دربار میں پیش ہوئے مدینہ منورہ میں۔ عمر نے ان کی شکل دیکھی حالات دیکھے عمر کا بڑا ان کے حال پہ رحم آیا کہا: پیدل حمص سے آئے ہو؟ کہا اے امیر المؤمنین پیدل آیا ہوں میرے پاس سواری نہیں اور کسی سے مانگی نہیں یہ صحابہ کرام کا ایمان تھا کہ وہ سوال نہیں کرتے تھے کسی سے سواری نہیں مانگی پیدل چلے کہا پیدل آ رہے ہو حمص سے کہا اے امیر المؤمنین پیدل آیا ہوں میرے پاس سواری نہیں تھی کسی سے مانگی نہیں کسی نے دی نہیں تو پیدل چلا اب ایک تھیلا ہے اس میں کھانے کا برتن ہے پینے کا برتن ہے اور ایک پاس عصا ہے یہ تھے ہمارے اکابر ہمارے گورنر لیکن ایمان کے لحاظ سے تقوی کے لحاظ سے اعمال کے لحاظ سے بڑے اعلی درجے پہ فائز تھے بڑے اعلی درجے کے اوپر اور عمر تقوی کو دیکھ کر اور ایمان کو دیکھ کر اور اعمال کو دیکھ کر گورنر بنایا کرتے تھے اللہ رب العزت ہمیں صحابہ کرام کے ایمانوں میں سے ان کے تقوی میں سے ان کے اعمال میں سے ہیمں وافر حصہ نصیب فرمائے

اور اللہ رب العزت ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تو ایسے نبی ﷺ نے نہیں فرمایا تھا نبی ﷺ کی زبان مبارک سے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت یافتہ بن جاؤ گے۔ ایک کھانے کا برتن ایک پینے کا برتن اور ایک لوٹا تھا وضو کے لئے

اور یہی اللہ پاک نے قرب قیامت کے زمانے میں ماشاء اللہ ہمارے تبلیغ والے اہل دعوت اللہ کے راستے میں چلتے ہیں پیدل جماعتیں چلتی ہیں ان کا بھی یہی حال ہوتا ہے پیدل چلتے ہیں گرد آلود ہوتے ہیں اور ان کے پاس ایسا ہی سامان ہوتا ہے ایک نسبت ہے اللہ پاک نسبتوں کے بڑے قدردان ہیں اللہ پاک نسبتوں کو دیکھتے ہیں نسبتوں کی قدر کرتے ہیں اور انشاء اللہ ہمیں امید ہے کہ اللہ رب العزت نسبتوں کی برکت سے اللہ پاک ہمیں انکی صفوں میں اٹھائے گا انشاء اللہنبی ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے نبی ﷺ کی خواہش تھی کہ میں اپنے بھائیوں کی زیارت کر لوں اپنے بھائیوں کی زیارت کر لوں اپنے بھائیوں کو دیکھ لوں صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں فرمایا: آپ میرے صحابہ ہیں میرے بھائی وہ ہوں گے جو میری امت کے آخری زمانہ میں آئیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے اور ایسے ہی دین کی محنت کریں گے وہ میرے بھائی ہیں ۔نبی ﷺ نے ہمیں اپنا بھائی کہا ہے اس لئے یہ نسبت بڑی اعلی نسبت ہے اللہ پاک ہم کو نصیب فرمائے اور اس نسبت کی بڑی قدردانی ہے جو اللہ کے رستے میں مسجد کے ماحول میں رہتے ہیں اللہ کے گھر میں رہتے ہیں چار مہینے اس رستے میں گزارتا ہے ایمان والا بن جاتا ہے تقوی والا بن جاتا ہے اور نہیں تو کم از کم اعمال والا بن جاتا ہے نماز بن جاتی ہے نماز کی پابندی ہو جاتی ہے تکبیر اولی کی پابندی ہو جاتی ہے فرائض کے علاوہ واجبات کی سنتوں کی نوافل کی پابندی ہو جاتی ہے یہ بھی بہت بڑی سعادت ہے بہت بڑی بات ہے روزے زندہ ہو جاتے ہیں حج زندہ ہو جاتا ہے مال جو پہلے کسی اور راستے میں لگتا تھا اب اللہ کے راستے میں لگنے لگ جاتا ہے اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے

۔انشاء اللہ پہلے لاالہ الا اللہ کا ذکرکرتے ہیں لا الہ نفی ہے الا اللہ اثبات ہے پھر اثبات کا ذکر کریں کریں الا اللہ پھر اسم ذات کا ذکر کریں گے اللہ ، اللہ ، اللہ اور پھر ہو کا ذکر کریں گے اور جب ہو کا ذکر کریں تو استحضار یہ ہو گا کہ وہ اللہ جو تعریف کے قابل ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے ، رب وہ ہوتا ہے جو رزق بھی دیتا ہے تربیت بھی کرتا ہے رزق بھی دیتا ہے تربیت بھی کرتا ہے وہ اللہ جو تعریف کے قابل ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے وہ اللہ جو روز جزا کا مالک ہے اس استحضار کے ساتھ ذکرکریں گے اس کے بعد مراقبہ ہوگا 

مراقبہ میں اللہ کا نام لینا ہے اور یہ تصور کریں گے یہ یقین ہو گا یہ لفظ اللہ میرے دل میں آ گیا ہے اس کی برکت سے میرے دل میں نور آ گیا ہے ، کہ اللہ پاک سراپا نور ہے اللہ کا نام بھی نورانی ہے اللہ کا نام میرے دل میں آ گیا ہے اس کی برکت سے میرے دل میں نور آ گیا ہے میرا دل نورانی ہو گیا ہے اور یہ قاعدہ ہے یہ اصول ہے جس دل میں نور آ جاتا ہے اس نور کی برکت سے اس روشنی کی برکت سے اس میں اچھے اخلاق آ جاتے ہیں اس دل میں اخلاص آ جاتا ہے اس دل میں انابت آ جاتی ہے وہ دل اللہ کی طرف رجوع والا بن جاتا ہے قلب منیب بن جاتا ہے جھکا ہوا دل بن جاتا ہے رجوع والا دل بن جاتا ہے ، توبہ وہ دل بن جاتا ہے، انابت والا دل بن جاتا ہے،اخلاص آجاتا ہے،صلہ رحمی آ جاتی ہے،ہمدردی آ جاتی ہے، محبت آجاتی ہے، شفقت آ جاتی ہے، اخلاق رزیلہ ریاء، رزائل میں سب سے بڑا اخلاق رزیلہ ریاء ہے سب سے بڑا سب سے اعلی صفت اخلاص اور اس کا متضاد ریا ء ہے کینہ نکل جاتا ہے، حسد بعض لوگ حسد کی آگ میں جلتےہیں کہ فلاں کو یہ چیز ملی ہے میں اس سے چھین لوں یہ چیز مجھے مل جائے اللہ دین ہے اللہ کا ہر بندے کے ساتھ اپنا معاملہ ہے۔ اللہ پاک ہر اپنے بندے پر نعمتوں کی بارش کرتے ہیں صحبت کتنی بڑی نعمت ہے آنکھیں ، آنکھوں سے دیکھنا بصارت کتنی بڑی نعمت ہے اللہ پاک ہمارے اوپر نعمتوں کی بوچھاڑ کرتا ہے ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے اخلاق رزیلہ نکل جاتے ہیں۔ کینہ ، حسد، بغض، خودنمائی، کبریائی، میں نکل جاتی ہے۔ یہ میں نکل گئی تو کامیابی ہو گئی میں نکل گئی تو کامیابی ہو گئی۔ کیونکہ اللہ پاک کو تواضع پسند ہے اللہ پاک کو صلہ رحمی پسند ہے کہ اپنے آپ کو مٹا دیں خاک ہو جائیں یہ اللہ کے قرب والے ہیں کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں: الکبریاء ردائی ۔کبریائی بڑاپن یہ میری صفت ہے یہ مجھ سے جھچتی ہے بندہ تو بےچارہ گندے قطرے سے بنا ہے اس کی کیا حیثیت ہے بڑاپن  کبریائی، خودنمائی، عظمت، قدرت یہ اللہ کی صفات ہیں اللہ کےساتھ جھچتی ہیں انسان بہت کمزور ہے اللہ پاک سے مانگا کریں اور روز جزاء کے دن یہ کام آئیں گی نوافل کام آئیں گے ۔دنیا میں اصول ہے فرض فرض ہے ساری عمرنفلیں پڑیں ایک فرض کے برابر نہیں ہو سکتا لیکن قیامت کے دن اللہ پاک اتنے کریم ہیں کہ اگر کسی بندے کے فرائض میں کمی رہ گئی تو اللہ پاک نفلوں سے اس کمی کو پورا کردیں گے حالانکہ فرض فرض ہے ۔اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ایک دفعہ سورہ فاتحہ المد شریف گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیں اور یہ ہدیہ کر دیں آقائےنامدار، فخر موجودات، امام الانبیاء، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی ﷺ کو جمیع انبیاءکرام ، جمیع صحابہ کرام ، جمیع صحابیات، تمام امہات المؤمنین، تمام پیران کبار، تمام اللہ والے چاروں سلاسل نقشبندیہ، چشتیہ، سہروردیہ، قادریہ کے اور اپنے والدین اگر فوت ہو چکے ہیں جمیع مسلمانوں کو جو فوت ہو چکے ہیں کہ اللہ پاک ان کے درجات کو بلند فرمائے اور جو پہلے سے کسی درجے پر پہنچے ہوئے ہیں اللہ کے قرب والے ہیں ان کی روحانی توجہ ہماری طرف متوجہ ہوتی ہے اور ان کی توجہات کی برکت سے ہمارے عمل میں جان آتی ہے اب ایصال ثواب کر لیں۔