About Us


وجہ تسمیہ کتاب دکان عشق

اس کتاب کا نام احقر(حضرت ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم )نے دکان عشق رکھا جسے حضرت خلیفہ غلام رسول کے چند ملفوظات سے اخذ کیا گیا ہے جن کو قارئین کے فائدہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے :

ایک موقع پر حضرت خلیفہ غلام رسول نے ارشاد فرمایا

”دلّی میں ایک اللہ والے بزرگ تھے، انہوں نے اپنے خلیفہ سے کہا: کیا آپ نے کبھی عشق کی دکانیں دیکھی ہیں، جہاں پر عشق بکتا اور فروخت ہوتا ہو؟پھر اس بزرگ نے خود ہی جواب دیا:میں نے عشق کی دو دکانیں دیکھی ہیں، ایک دکان خواجہ پیر پٹھانؒ، اور دوسری حضرت شاہ غلام علی دہلوی ؒکی۔“


 

پھر حضرت خلیفہ غلام رسول jفرمانے لگے:

”میں نے بھی عشق کی دو دکانیں دیکھی ہیں، ایک حضرت مولانا احمد علی لاہوریj کی اور دوسری خواجہغلامحسن سواگیj کی۔“

حضرت خلیفہ صاحب ؒ پھر فرمانے لگے:

”یہ لوگ عشق کی چابیاںسمندر میں پھینک کر چلے گئے، عشق کی دکانوں کو تالا لگا کر چلے گئے ، اگر ہیں تو چھپ گئے ہیں۔اس پر (مولانا محمد بلال حفظہ اللہ ) نے عرض کیا:

الحمدللہ !حضرت کے یہاں بھی عشق کی دکان کھلی ہے۔“

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒاپنی کتاب"تذکرہ حضرت مولانا فضل الرحمنگنجمراد آبادیj"کے مقدمے میں لکھتے ہیں:


 

”چودھویں صدی ہجری کی ابتدا ءکے مشہور بزرگ حضرت مولانا فضل الرحمنگنج مراد آبادیj نے ایک روز مولانا محمد علی صاحب مونگیریj سے فرمایا :تم نے کوئی عشق کی دکان بھی دیکھی ہے ؟مولانا محمد علیؒ نے سکوت کیا، آپ نے فرمایا:ہم نے دو دکانیں دیکھی ہیں، ایک شاہ غلام علیدہلوی صاحب j کی اور د وسری حضرت شاہ آفاقیj کیکہ اس دکان میں عشق کا سودا بکا کرتا تھا۔“


 

ہماری اس صدی کے آغاز میں اگرچہ انگریزوںکےدم قدم سے مادیت کے قدم اس ملک میں جم گئے تھے اور اہل دل بڑے دردسے کہہ رہے تھے:


 

اس کتاوہ جو بیچتے تھے دوائے دل


 

وہ دکان اپنی بڑھا گئے!

 

پھر بھی عشق الہٰی کی کہیں کہیں دکانیں قائمتھیں ،جہاں سے جذب شوق اور درد و محبت کا سودا ملتاتھا۔

(مولانا محمدبلال حفظہ اللہ)فرماتے ہیںکہ ان دکانوں میں سے  ایک دکان ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دیہات"لعل ماہڑہ" میں بھی حضرت خلیفہ غلام رسول j کی کھلی تھی،جہاں سے لوگاللہ تعالی اور اس کے رسول a کی محبت لوٹ لوٹ کر لے جاتے تھے۔

بِسْمِ اللہ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ


عرض مرتب

(مولانا محمد بلال عفیعنہ ، خلیفہ مجاز حضرت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب دامت برکاتہم العالیہ )

می نہ روید تخم دل از آب وگل


 

بے نگاہے از خداوندان دل

ببندہ (مولوی محمد بلال حفظہ اللہ ) کی سب سے پہلی ملاقات مملکت سعودیہ عربیہ کے دارالخلافہ ریاض میں حضرت ڈاکٹر عبدالسلام دامت برکاتہم خلیفہ مجاز ،امام تصوف ، جامع الفضائل ، قطب وقت حضرت خلیفہ غلام رسول نور اللہ مرقدہ سے ہوئی، اور وہ ملاقات گودعوت وتبلیغ کی نسبت سےتھی ،بعد میں وہی ملاقات حضرت ڈاکٹر صاحب زیدمجدہ سے تفصیلی تعارف اور تعلق کا ذریعہ بنی۔

بندہ جب اولیاء اللہ ، اہل اللہ ، اہل قلب ، صوفیاء عظام کی سوانح ، حالات زندگی،ان کا تعلق مع اللہ، ان کی اللہ تعالی اور اس کے رسول aسے انتہا درجہ عشق و محبت اور ان کی توجہ وصحبت کی تاثیر پڑھا کرتا تھا ، تو دل میں بارہا خیال آتا تھا کہ اب اس پر فتن دور میں ہم گناہگاروں کو ایسی شخصیات کی زیارت اور ان کی صحبت سے استفادے کا موقع کہاں مل سکتا ہے؟خصوصا سلوک وتصوف اور تزکیہ نفس کے شعبے میں متقدمینبزرگوں کے حالاتپڑھ کراس زمانے میں اس قسم کے اہل اللہ اور اہل توجہ بزرگوں کی زیارت کے لئے قلب میں ایک اضطراب کی کیفیت رہتی تھی۔اور کبھی خیال آتا کہ شاید اس قسم کے اللہ والے کسی جنگل،صحراء،دیہات، جزیرےیا پہاڑ کی غاروں میں چھپے ہوئے ہوں گے،


 

جن تک رسائی آسان نہیں۔کبھی کبھی حق تعالی شانہ سے اس کی دعابھی مانگا کرتا تھا،اگرچہ دنیا کسی زمانے میں بھی اللہ والوں کے وجود سے خالینہیں رہی اور جو موجودہ زمانے میں اہل اللہ ہیں، وہی ہمارے لئے سب کچھ ہیں۔ ان کی ناقدری، ان سے عدم استفادہ، محرومی اور خسران عظیم ہے۔یہی ہمارے لئے حضرت مجدد الف ثانیj،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریj، حضرت خواجہ شہابالدینسہروردیjاورحضرت خواجہ بہاء الدینمحمد نقشبندjکےقائم مقام ہیں۔جو اہل اللہ آج کے زمانے میں موجود ہیں،بعد والے ان کی زیارت کو بھی ترسیں گے،جیسا کہ آج ہم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیj، اسوۃ الفقہاء،قدوۃ العلماء حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ، اور بانیٔ دارالعلوم دیوبند،قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس اللہ سرّہ ،اور دونوں حضرات کے شیخ ،شیخ العلماء وشیخ العرب والعجم، سید العرفاء ،حجۃ اللہ فی زمانہ وآیۃ اللہ فی اوانہ الحاج محمد امداداللہ مہاجر مکی قدس سرہ، حضرت حکیم الامت مجدد ملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی، مجدد وقت صاحبمقامات جلیلہ وکمالات جزیلہ، مورد الطاف ربانیہ،حامل علوم صمدانیہ،امیر تبلیغ الحافظ الحاج العلامۃ الشیخ محمد الیاس صاحب نوراللہ مرقدہ اور داعئیکبیر حضرت مولانا محمد یوسفصاحب نوراللہ مرقدہ وغیرہ کی زیارت اور دیدار کی تمنا کرتے ہیں۔


 

بفضلہ تعالی بندہ نےاپنے شیخ اول قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد زکریاکاندھلوی نور اللہ مرقدہ ، اور بندہ کے شیخ ثانیحضرت جی ثالث مولانا محمد انعام الحسن نور اللہ مرقدہ اور حضرت مولانا سعید احمد خان مہاجر مدنیj کی زیارت کی اور ان کی صحبت سے استفادے کا بھی موقع ملا ، اگرچہ اپنی نااہلیت کی بنا پر کما حقہ استفادہ نہ کر سکالیکن ہم سے بعدمیں آنے والے ان کی زیارت کو بھی ترسیں گےاور ان کے دیدار کی تمنا کریں گے۔

 

اسی بنا پر بندہ کے دل میں تمنا تھی کہ متقدمین صوفیاء اور اہل اللہ میں سے کسی کی زیارت میسر آ جاتی، جب ڈاکٹر صاحب موصوف سے بات چیت ہوئی اور انہوں نے اس دوران اپنی کاپی سے حضرت مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ حضرت غلام رسول j کے ملفوظات اورمجلسی گفتگو سنانی شروع کی تو دل گواہی دینے لگا کہ شایدیہ وہی شخصیت ہیں جو متقدمین کی جھلک ہیں اور اپنے فنسلوک وتزکیہ کے ماہر ترین اور حاذق طبیب روحانی اور ذکر اللہ کے نشیب وفراز سے خوب واقف ہیں۔

 

حضرت خلیفہ غلام رسول ؒ کے واقعات اور ملفوظات رات دیر تک سنتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا ، اور محو حیرت ہوتا چلا گیا، جوں جوں واقعات وملفوظات سنتا گیا اتنا ہی حضرت خلیفہ غلام رسول j کی زیارت کی طلب اور پیاسبڑھتی چلی گئی، چنانچہ ڈاکٹر صاحب زیدمجدہ سے یہ بات طے ہوئی کہ پاکستان جا کر ان کی رہبری میں ملاقات کی لئے ترتیب بنائیں گے۔انتظار کی گھڑیاں گزرتے گزرتے وہ دن زندگی میں اللہ تعالی نے دکھایا کہ رائےونڈ ،تبلیغی مرکز سےرات عشاء کے بعدلاہور سے بذریعہ بس ڈیرہاسماعیل خان کی طرف سفر شروع ہوا، فجر کی نمازڈیرہ اسماعیل خان کے مدرسہ نعمانیہ میں پڑھی، مدرسے کے منتظم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا علاء الدینj،تلمیذ رشید شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت نے ناشتہ کروایا اور پھر کچھ آرام کے بعد منزل مقصود کے لئے روانہ ہوئے۔معلوم ہوا کہ حضرت خلیفہj شہر سے دور ایک دیہات"لعلماہڑہ"نامی بستی میں سکونت پذیرہیں، شہر سے کچھ کھانے پینے کا سامان خریدا ، پوچھنے پر بتایا گیا کہ حضرت کے یہاں غربت ومسکنت انتہاء درجہ کی رہتی ہے، اس بات نے دلپر ایک اور اثر ڈالا، حضرت کی محبت مزید بڑھتی چلی گئی، پھر حضرت خلیفہ غلام رسول j کے دیہات میں داخل ہوئے تو گھر انتہاء درجہ خستہاور راستہ کچا تھا،بارش ہونے پر راستہ بند ہونے کا خطرہ بتایا گیا۔

 

حضرتؒ کے دولت خانے پر حاضری دی، حضرتؒ کی آمد کے انتظار و اضطراب کی گھڑیاں عجیب کیفیت کے ساتھ گزر رہی تھیں، اور ایک عجیب قسم کا حضرتؒ کی طرف انجذاب اور کشش بڑھ رہی تھی، اسی دوران حضرتؒ مجلسمیں رونق افروز ہوئے، ایک نحیف وضعیف جسم، دو آدمیوں کے سہارے مجلس میں تشریف لائے، حضرتؒ کی پیشانی اور ہاتھوں کو بوسہ دیا، حضرت کو اپنا تعارف کرایا،جس کو سن کر حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا،خاص طور پر مدینۃ الرسول علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا نام سن کر حضرتؒ نے سر جھکا لیا اور پھر محبت رسول کی باتیں کرنا شروعفرما دیں۔حضرت خلیفہ غلام رسول j نے اسی ملاقات میںیا بعد کی کسی ملاقات میں ارشاد فرمایا:

 

”میرا سلام مدینہ کی گلیوں، دیواروں، پہاڑوں کو کہہ دیناکیونکہ ان پہاڑوں پر میرےآقا a کی نظر پڑی ہے، وہ ارض مقدس، مقدس زمیناور شہر ہے، بڑا پیارا ملک ہے،اللہ تعالی آپ کو ادب کی توفیق دے، مدینہ کے کتوں کو اپنے سے اعلی سمجھو۔ اور پھر خلیفہ صاحبؒ فرمانے لگے کہ جب مولانا محمد قاسم نانوتویj نے فرمایا تھا!اے اللہ مجھے مدینہ کے کتوںمیں شمار کرنا۔ پھر مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے: آپ کا مقام مہاجرین کا ہے کیونکہ آپ نے کراچیسے مدینہطیبہ ہجرت کی ہے اور ہمارے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہا کرو اور جب بھی دربار نبوت میں حاضری ہو، دربار نبوت میں میرا صلوۃ وسلام عرض کیا کرو،یاروں کو بھی سلام کہہ دو ،بقیع والو ں کو بھی، ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی علیہنّ اور شیخ الحدیث قطب الاقطابؒ کو بھی میرا سلام عرض کرو ،احد کے پہاڑوں کو بھی میرا سلام دو، اصحاب احدرضوان اللہ تعالی علیہم اجمعینکو بھی سلام دو،اگر حضرت عیسی علیہالسلام کا نزول آپ کی زندگی میں ہو جائے، ان کو بھی میرا سلام کہو (اس کے بعد کی گفتگو کتاب میں تفصیل سے آئے گی )۔“

 

انداز گفتگو ایساتھا کہ صاف محسوس ہوتا تھا کہ یہ صرف قال نہیں، بلکہ حضرتؒ کا حال بھی ہے، اور مدینہ اور صاحب مدینہaکی محبت دل میں گھلتی چلی جا رہی تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ واقعی اللہ والے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی ایک ایک بات حقیقت پر مبنی ہوتی ہے۔

 

ایک سال جب بندہ کراچی کے کچھ علمائے کرام کے ساتھ رائے ونڈ سے حضرت خلیفہ صاحب رحمہ اللہکی خدمت میں حاضر ہوا ، حضرت مولانا عمر فاروق صاحب زید مجدہ بھی تھے اور ایبٹ آباد کے حضرت مولانا آصف زید مجدہ بھی تھے، حضرت ؒاپنےدولت خانےسے مہمان خانے ہماری ملاقاتکے لئے اپنے صاحبزادے کے سہارے تشریف لا رہے تھے،حضرتؒ کو دیکھ کر ہمکھڑے ہو گئے اور جلدی سے سہارا دینے کو ہم نے اپنی سعادت سمجھا،حضرتؒ کے ساتھساتھ ایک بھینیبھینی خوشبو چلی آ رہی تھی، جو دنیا کی عام خوشبو ہر گز نہیں تھی،جس کو بندہ نے بھی اور بندہ کے برادرِ محترم نے بھی خوباچھی طرح محسوس کیا، اور جب حضرت چارپائی پر تشریف فرما ہوئے ، وہ خوشبو بدستور آ رہی تھی، برادر محترمنے دریافت کیا کہ حضرت!یہ کیسی خوشبو ہے ؟ حضرت ؒ نے حقیقت صاف صاف بتادی ، فرمایا کہ یہ نسبت کی خوشبو ہے (یعنی اللہ تعالی کے خاص تعلقکی ) اور ضروری نہیں کہ ہر ایک کو آئے۔یہ سن کروہ ساریحدیثیں ذہن میں گھوم گئیںجو نبی اکرم aکے باطن مبارککی خوشبو کے متعلقوارد ہیں،مثلا مسلم اور شمائل ترمذی وغیرہ میں ہے:

 

قَالَ أَنَسٌ: «مَا شَمَمْتُ عَنْبَرًا قَطُّ، وَلَا مِسْكًا، وَلَا شَيْئًا أَطْيَبَ مِنْ رِيحِ رَسُولِ اللهِ »

 

ترجمہ: میں نے کبھی کوئی عنبر اور نہ ہی مشک اور نہ کوئی اور چیز ایسی سونگھی جو نبی کریم کےپسینہ مبارک سے اچھی ہو۔

 

اسی طرح طبقات ابن سعد میں حضرت علیtسے مروی ہے :

 

قال وسطعت ریح طیبة لم یجدوا مثلہا قط۔(طبقات ابن سعد ج:۲ ص۲۸۰)

 

جب حضرت علیtنے نبی کریمaکو غسل دیا تو ایسی عمدہخوشبو ظاہر ہوئی کہ اس جیسی خوشبو کبھینہیںسونگھیگئی ،وغیرہ وغیرہ۔

 

اس دن اندازہ ہو ا کہ اللہ والوں کا باطن کتنا منور اور خوشبودار ہوتا ہے، اور کیوں نہ حضرت خلیفہ صاحب j سے خوشبو آتی کہ ان کے شیخ حضرت مولانا احمد علی لاہوریj کی قبر مبارک سے کئی دن تک خوشبوپھوٹ پھوٹ کرنکلتی رہی تھی۔

 

بندہ،حضرت خلیفہصاحب j کے لئے مدینہ منورہ اور بدر کے درمیان واقع بئرِ روحاء کا پانی لے گیا تھا ، حضرت ؒبہت خوش ہوئے اور فرمایا:آئندہ جب آنا وہاں سے یہیہ لے کر آنا :حضرت سلمان فارسیtکے کھجور کے باغ کی کچھ مٹی ، بئر عثمان tکا پانی ، جبل احد کے غارخوشبو کا ایک پتھر ، حضرت آمنہ r کی قبر کی مٹی، حجرہ مبارکہ کا غلاف۔

 

بندہ نے بخاری شریف کی منتخب احادیث مبارکہ کی ایک شرح: ” کا نام احقر)حضرت ڈاکٹر صاح

بہجة النفوس وتحلیہا بمعرفة ما لہا وما علیہا

“کا ذکر کیا ، جو محدث

ابو محمدعبداللہ بن ابی حمزہ الازدی الاندلسی متوفی ۶۹۹ھ

کی ہے ، جس میں شیخ نے احادیث کی شرح تصو ف وسلوک کے انداز میں کی ہے اور احادیث مبارکہ سے اس کو ثابت کیا ہے۔ حضرت خلیفہ صاحب ؒ اس کا سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ایسی کتاب کا پہلی بار سن رہا ہوں، آپ اس کا ترجمہ ضرور کرنا۔

 

بہر کیف! کن کن باتوں کا ذکر کروں؟ ایک ایک بات حضرت خلیفہ صاحب j کی آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔جن قارئین کرام کو اس کتاب کےپڑھنے کا موقع ملے گا ، وہ یہ بات ضرور کہنے پر اپنے آپ کو مجبور پائیں گے کہ حضرت خلیفہ صاحب jکے خادم خاص حضرت ڈاکٹر عبدالسلام دامت برکاتہم نے اس کتاب میں حضرت خلیفہ صاحب ؒ کی دس سالہ صحبت اور خدمت کا عرق ونچوڑ جمع کر دیا ہے۔ حضرت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اس کتاب میں حضرت j سے تعارف اور پہلی ملاقات کا اپنا واقعہ ذکر کیا ہے ، اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے حضرت ڈاکٹر صاحب کو دس سال حضرت خلیفہ صاحب j کی صحبت سے مستفیدہونے، مجلسی گفتگو ضبط کرنے اور منازل سلوک طے کرنے کا سنہری موقع عطا کیا۔ حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب نور اللہ مرقدہ نے چار سال رمضان المبارک کی راتیں اور دن کا کچھ حصہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے گھر میں گزارا۔ جس میں ڈاکٹر صاحب زید مجدہ کو خوب اپنے شیخ کے قریبرہنے کا موقع ملا،اور پھر اپنے شیخ کی بے مثال خدمت کی۔ ظاہر بین کہتے تھے: اس ڈاکٹر کو کیا ہو گیا ؟ پاگل ہوگیا، ایک فقیر کے پیچھے دیوانہ وار پھرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالینے حضرت ڈاکٹرصاحب کو اس خدمت کا صلہ روحانی عطا فرمایا۔ڈاکٹر صاحب دو مرتبہ حضرت j کو عمرے کےلئے حرمین شریفین بھی لائے اور ان دو سفروں میں بھی خوب خدمت کی اور آج ماشاء اللہحضرت j کافیض تقسیم کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب زید مجدہ پر رشک آتا ہے کہ حضرت jسے خوب استفادہ کیا اور آپ کی خوب خدمت کی ، اور آج تک حضرت jکے اہل خانہ کی خدمت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ فیض روحانی روز بروز بڑھا جار ہا ہے ،اللہم زد فزد!

 

یہ میری سعادت ہےکہ حضرت ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کا مسودہ بندہ کے حوالے کیا کہمیں اس پر مقدمہ لکھوں ،کتاب کے مضامینکیتصحیحبھی کروں، اصطلاحاتتصوف کی قدرے ضروری تشریح بھی کر دوں اور دلائل بھی بقدر ضرورت لکھ دوں ،اس امید پر میں نے اس بھاری امانت کے بوجھ کو قبول کیا کہ شاید اس کی برکت سےحضرت خلیفہصاحبj کی روح مبارک خوش ہو جائے اور قیامت میں بندہ کی شفاعت فرما دیں ، جومیرے لئے ذریعہ نجات ہو۔ ورنہ کہاں بندہ اور کہاں تصوف ! اس کی الف ب سے بھی بندہ واقف نہیں۔

 

لیکن حضرت خلیفہ صاحب jکی روحانی توجہ سمجھتا ہوںکہ موقع بہ موقع حق تعالیٰ شانہ کی امدا د شامل حال ہوتی چلی گئی اور راستہ کھلتا چلا گیا، اور اس توجہ کو اس دل کے اندھے نے محسوس بھی کیا،اور کچھ مبشرات بھی دیکھے۔ حق تعالیاپنے فضل وکرم سے قبول فرمائیں اور حضرت ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔ کہ آپ نے یہ اوراق لکھ کر اور حضرت j کی گفتگوضبط کر کے ہم سب پر احسان فرمایا اور خاص طور پر حضرت ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھے ایسی چھپی اور گوشہ نشین اللہ والی شخصیت سے ملایا کہ اگر ان سے ملاقات نہ ہوتیتو متقدمین سلف کی جھلک دیکھنے کو بندہ ترستا ہی رہ جاتا۔ساتھ ہی اس پر افسوس بھی ہے کہ حضرت خلیفہ صاحب قدسسرہ سے جو حاصل کرنا چاہئے تھا ، وہ حاصل نہ کر سکا۔

 

چونکہیہ کتاب مجلسی گفتگو کے جمع کرنے کی غرض سے لکھیگئی ہے۔ جس میں گفتگو کے دوران کبھی حضرت خلیفہصاحب jنے خوداپنی زندگی کے حالات بیان فرما دیئے، لیکن آپ کے وہ حالات ترتیب وار نہیں تھے، اس لئے کوشش کیگئیکہ عنوانات قائم کر کے پہلے سوانح حیات کے بارے میں، پھر دوسرے موضوعات پر مواد جمع ہو جائے، لیکن اس کو کوئی مرتب سوانح نہ سمجھے، بلکہ حضرت jکے ارشادات، ملفوظات و مکتوبات سمجھے جائیں، اور یہی اس کا مقصد ہے، تا کہ بعد والوں کے لئے اور خاص طور پر سالکینکے لئے مشعل راہ ہو۔ب دامت برک