سیدنا حضرت خواجہ ابو سعید الحسن بن یسار البصری رحمۃ اللہ علیہ

الحسن البصري

نام ونسب اور ولادت:

ان کا نام "الحسن بن أبى الحسن البصرى أبو سعيد مولى زيد ابن ثابت"

حسن نام، ابوسعید کنیت، والد کا نام یسار تھا، علمی کمالات کے لحاظ سے سرخیل علماء اوراخلاقی وروحانی فضائل کے اعتبار سے سرتاج اولیاء تھے۔ ان کے والدین غلام تھے، ان کی غلامی کے بارے میں مختلف بیانات ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ ان کے والد میسان کے قیدیوں میں تھے، انس بن مالک کی پھوپھی ربیع بنت نصر نے خرید کر آزاد کیا تھا دوسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد اوروالدہ دونوں بنی نجار یعنی ایک انصاری کی غلامی میں تھے، انہوں نے بیوی کے مہر میں بنی سلمہ کو دے دیا تھا، بنی سلمہ نے ان کو آزاد کردیا، تیسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد حضرت زید بن ثابتؓ کے غلام تھے اوران کی ماں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی لونڈی تھیں، ان اختلافات سے قطع نظر کرکے اتنا مسلم ہے کہ یسار اوران کی بیوی لونڈی غلام تھے اورجیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا آخری روایت زیادہ مستند ہے۔

ولادت:

حضرت حسن بصری کی پیدائش حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آٹھویں سال ہوئی تھی اور ان کی والدہ محترمہ حضرت خیرہ یہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جو نبیﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں ان کی خادمہ تھی جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئیں حضرت عمرؓ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں لعاب ڈالا اور نام بھی انہوں نے رکھا۔ جب آپ حضرت عمر فاروقؓ کے حضور میں لائے گئے تو انہوں نے آپ کو نہایت خوبرو دیکھ کر فرمایا کہ یعنی یہ حسین ہے اس لیے اس کا نام حسن رکھو۔ فاروقِ اعظمؓ نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کو دین کے علم کا ماہر بنا اور لوگوں میں محبوب بنا جو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور آپ کو علمِ دین اور فقر میں بلند مرتبہ عطا ہوا۔ا

ام المومنین ام سلمہؓ کی رضاعت:

حسن بصری آخری عہد فاروقی میں جب کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کو دوسال باقی رہ گئے تھے یعنی 21ھ میں پیدا ہوئے، ام المومنین ام سلمہؓ کی غلامی کی نسبت سے ان کو وہ شرف میسر ہوا جو کم خوش قسمتوں کے حصہ میں آیا ہوگا، ان کی ماں لونڈی تھیں، اس لیے اکثر گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں، جب وہ حسن بصری کو چھوڑ کر کسی کام میں لگ جائیں اور وہ رونے لگتے تو حضرت ام سلمہؓ ان کو بہلانے کے لیے چھاتی منہ میں دے دیتیں پھر ان کی ماں لوٹ کر دودھ پلاتیں، اس طرح اُن کو ام المومنین کی رضاعت کا شرف حاصل ہوا۔ حسن بصری حضرت ام سلمہؓ کے سایہ شفقت میں پلے تھےان کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات کے گھروں میں بھی ان کی آمد ورفت رہتی تھی ان کا خود بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک جب کہ ان کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی وہ بے تکلف ازواج مطہرات کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔ 

ایسے شخص کی برکات بلکل بدیہی ہیں جس نے امہات المؤمنین کے گھروں میں تربیت پائی ہو اور ان کے ادب سے ادب سیکھا ہو اور ان کے اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کیا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ بڑے بڑے صحابہ سے درس تلمذ لیا ہو ۔ذ

حسن بصری ؒ کی شجاعت:

اللہ تعالی نے ان کی ہیبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی تھی اور یہ کلمہ حق کہنے میں کسی کی ملامت کی کوئی  پرواہ نہیں کرتے تھے اور بادشاہوں کے پاس جا کر ان کو نیکی کی تلقین اور برائیوں سے منع فرمایا کرتے تھے خاص طور پر حجاج بن یوسف کے پاس بھی جایا کرتے تھے لیکن اللہ تعالی نے ان کو اس کی شرارتوں سے مامون رکھا تھا۔

امام غزالیؒ  فرماتے ہیں کہ حسن بصری کا کلام  لوگوں میں سب سے زیادہ انبیاء کے کلام کے مشابہ تھا   اور صحابہ کرام کے زیادہ قریبی تھے ۔

حسن بصری ؒ کی فصاحت وبلاغت:

ان کو اللہ تعالی نے فصاحت میں بڑا ملکہ عطا فرمایا تھا  اوران کے منہ مبارک سے اللہ تعالی نے حکمت کو جاری کردیا تھا ۔

علامہ خیر الدین الزرکلی فرماتے ہیں جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ خلیفہ بنے تو انہوں نے حضرت حسن بصریؒ   کی طرف لکھا کہ مجھے اس خلافت کی آزمائش میں مبتلا کر دیا گیا ہے اس میں میرے لیے کوئی  معاونین تلاش کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ جو لوگ دنیا چاہنے والے ہیں وہ تیرے مقصود نہیں ہیں اور جو آخرت چاہنے والے ہیں وہ تیرے قریب آتے نہیں ہیں اس لیے تو اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کر۔(کار[1])

ابتدائی حالات:

ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ اس لیے حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ اس پیشے سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ لیکن جب عشق الہی کا غلبہ ہوا تو سارا روپیہ راہ خدا میں لٹا دیا اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ خوف الہی سے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ مزاج میں انکسار بہت تھا۔ آپ کے نزدیک زہد کی بنیاد حزن و الم ہے۔تصوف میں خوف و الم کا مسلک آپ ہی سے منسوب ہے۔ تمام اکابر صوفیاءآپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں۔ آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی۔

خرقہ خلافت:

آپ علی بن ابی طالب کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقہ فقر پایا۔ شاہِ ولایت امیرالمومنین علی بن ابی طالب نے حسن بصری کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازااور ذکرِ کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ علی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپ کو سکھایا اور آپ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔

امام مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں یونس بن عبید اللہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے پوچھا ابو سعید آپ روایت بیان کرتے ہوئے یہ کیوں فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاحالانکہ یقیناً آپ نے ان کا عہد نہیں پایا تو انہوں نے جواب دیا اے بھتیجے تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے مجھ سے کسی اور نے نہیں پوچھی۔ اگر میرے نزدیک تمہاری خاص حیثیت نہ ہوتی تو میں تمہیں بیان نہ کرتا۔ میں جس زمانے میں ہوں وہ تمہارے سامنے ہے (وہ حجاج بن یوسف کا دور تھا)۔ ہر وہ روایت جس میں تم نے مجھ سے سنا کہ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا وہ دراصل علی بن ابی طالب سے مروی ہے، مگر یہ کہ میں ایسے زمانے میں ہوں جس میں علی بن ابی طالب کا تذکرہ مجبوراً نہیں کر سکتا۔[

تذکرۃ الاولیاء میں خواجہ شیخ فرید الدین عطار لکھتے ہیں کہ خواجہ حسن بصری نے ایک سو بیس صحابہ کرام کی زیارت کی جن میں سے ستر بدری صحابہ تھے۔

سلسلہ قادریہ اور سلسلہ چشتیہ آپ کے وسیلہ سے علی بن ابی طالب سے جاملتا ہے۔ تصوف میں آپ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سنت نبوی کے سخت پابند تھے۔

اکابر کے امام حسن بصریؒ کے بارے میں اقوال:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اکثر جب لوگ کوئی  مسئلہ دریافت فرماتے تو وہ کہا کرتے تھے کہ مولانا  حسن سے پوچھو اس لیے کہ اس نے بھی یاد کیا ہے اور ہم نے بھی یاد کیا ہے لیکن ہم بھول چکے ہیں اور اس کی یادداشت ابھی باقی ہیں ۔

حضرت قتادہ عدوی اور حضرت ابوبردہ اشعری فرمایا کرتے تھے کہ  حسن سے ساتھ چمٹ جاؤ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی رائے کے مشابہ اس سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا ۔

علی بن زید فرماتے تھے کہ میں نے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، یحیی بن جعدہ ، قاسم بن محمد ، سالم  رحمہم اللہ علیہم اور کئ تابعین کو دیکھا لیکن ان میں سے کوئی  بھی حسن کے مقا م کی طرح نہیں تھا ۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ " الامام الحجة"([2])

علامہ زرکلیؒ نے فرمایا کہ یہ عالم فقیہ اور فصیح لوگوں میں سے ایک تھے ۔

علامہ صفدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " الحسن بن يسار البصري الفقيه القارئ الزاهد العابد، سيد زمانه، إمام أهل البصرة، بل إمام أهل العصر."

حسن بصری فقیہ ، قاری ، زاہد ، عابد اپنے زمانے کے سردار اور اہل بصرہ کے امام بلکہ اپنے زمانے کے امام ہیں ۔

حسن بصری ؒکے اساتذہ:

حضرت حسن بصری کے اساتذہ میں جلیل القدر صحابہ شامل ہیں جن میں حضرت ابی موسی اشعری ، عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمر عبد اللہ بن عباس ، جابر بن عبد اللہ   رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں (۔

علمی مقام:

امام حسن بصری تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ علمِ ظاہر و باطن کے علاوہ آپ زہد و ریاضت میں بھی کامل تھے۔ شب و روز اللہ تعالی کی یاد میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ستر برس تک سوائے عذرِ شرعی کے آپ کا وضو نہ ٹوٹا اور آپ کبھی بے وضو نہ رہے۔ یہاں تک کہ مرتبۂ کمال تک پہنچے۔ آپ اللہ تعالی کی خشیت کے سبب اس قدر گریہ کرتے کہ آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھی گئیں، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ حضرت امام حسن بصری کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک بار وعظ فرمانے کے علاوہ زیادہ وقت تنہائی اور گوشہ نشینی میں گزارتے۔ آپ کا وعظ اکثر دل کے خطروں اور اعمال کی خرابیوں اور نفس کے وسوسوں و خواہشات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔ آپ کے وعظ میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی جن میں اپنے وقت کے تمام علما و اولیاء شامل ہوتے۔ رابعہ بصری بھی آپ کے مواعظ سے اکتسابِ فیض کرتیں۔ جب آپ کا ذکر محمد باقر کے سامنے ہوتا تو وہ فرماتے حسن کا کلام انبیا علیہم السلام کے کلام کے مشابہ ہے۔ بلال بن ابی بردہ فرمایا کرتے تھے میں نے حسن بصری سے زیادہ کسی کو صحابہ کرامؓ سے مشابہ نہیں پایا۔ ایک شخص نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ حسن بصری کو ہم لوگوں پر کس وجہ سے بزرگی اور سرداری ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تمام مخلوق اس کے علم کی حاجت مند ہے اور اس کو سوائے خالق کے کسی کی حاجت نہیں۔ دین میں سب اس کے محتاج ہیں، اس سبب سے وہ سب کا سردار ہے۔

علمی کمالات:

حسن بصری ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے جب کہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی اورایسے مقام پر ان کی نشوونما ہوئی تھی جہاں کی گلی گلی علم نبوی کا مخزن تھی، پھر انہیں صحبت ایسے بزرگوں کی میسر آئی جو تعلیماتِ اسلامی کا زندہ نمونہ اوراخلاق نبوی کی مجسم تصویر تھے اس لیے ان کا دامن علم و عمل فضل وکمال اورزہد وورع جملہ اخلاقی اورروحانی فضائل سے مالا مال ہوگیا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں۔ کان الحسن جامعاً عالماً عالیاً رفیعاً  فقیھاً  ماموناً، عابداً، ناسکاً، کبیرالعلم فصیحا جمیلا وسفیاً [15] حسن بصری جامع کمالات تھے، عالم تھے، بلند مرتبت ، فقیہ تھے، مامون تھے، عابد وزاہد تھے، وسیع العلم تھے، فصیح و بلیغ اورحسین وجمیل تھے، غرض وہ جملہ ظاہری اورباطنی نعمتوں سے مالا مال تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں، حافظ، علامۃ من بحور العلم، فقیۃ النفس، کبیر الشان، عدیم النظیر، ملیح التذکیر، بلیغ الموعطۃ، راس فی انواع الخیر

 علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ مشہور عالم تھے ان کی جلالتِ شان پر سب کا اتفاق ہے۔ 

حسن بصری ؒکے اخلاق:

حسن بصری کے اخلاق میں سے یہ مشہور ہے کہ ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جو بات کہتے تھے اسی کو کرتے تھے ان کا ظاہر بلکل ان کے باطن کی طرح تھا وہ لوگوں سے بلکل بے رغبت تھے لیکن لوگ ان کے محتاج تھے اور  ان سے ہر وقت حصول علم کے لیے کوشاں رہتے تھے

امام شعبی کہتے تھے کہ میں نے اس ملک (عراق) کے کسی شخص کو بھی ان سے افضل نہیں پایا، قتادہ لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ اس شخص (حسن بصری) کا دامن پکڑو میں نے رائے میں اس سے زیادہ کس شخص کو عمر بن الخطابؓ کے مشابہ نہیں دیکھا، اعمش کہتے تھے کہ حسن حکمت کو محفوظ رکھتے تھے اوراس کو بولتے تھے، الب القطان کہتے تھے کہ اس عہد کے علماء پر حسن کو ایسی ہی فضیلت حاصل تھی جیسےطیور میں باز کو گوریوں پر ہوتی ہے، جو شخص اس زمانے کے سب بڑے عالم کو دیکھنا چاہے اسے حسن کو دیکھنا چاہیے، عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ مجھے اہل بصرہ پر حسن اورمحمد دوشیخوں کی وجہ سے رشک ہے، یونس بن عبید اللہ اورحمید الطویل کہتے تھے کہ میں نے بہت سے فقہا کو دیکھا؛ لیکن حسن سے زیادہ کسی کو کامل المروۃ نہیں پایا، عطاء بن ابی رباح لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ تم لوگ اس شخص (حسن) کی طرف مسائل میں رجوع کیا کرو، وہ بہت بڑے عالم، امام اورمقتداء ہیں، امام مالک فرماتے تھے کہ تم لوگ حسن بصری سے مسائل پوچھا کرو؛ کیونکہ انہوں نے محفوظ رکھا اورہم نے بھلادیا، بعض لوگ یہاں تک کہتے تھے کہ اگر حسن نے سن شعور میں عہد صحابہ پایا ہوتا تو یہ بزرگوار رائے میں ان کے محتاج ہوتے۔ اگرچہ حسن بصری جامع العلوم تھے، لیکن ان کی زندگی زیادہ تر زہد وعبادت اورروحانی مشاغل میں بسر ہوتی تھی، اس لیے ان کے روحانی مرتبہ کے مقابلہ میں ان کے علم کی تفصیلات بہت کم ملتی ہیں، تاہم جتنے حالات ملتے ہیں وہ سر سری اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں، ان کو تفسیر فقہ اورحدیث جملہ مذہبی علوم میں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔

تفسیر:

مفسر کی حیثیت سے انہوں نے کوئی خاص شہرت حاصل نہیں کی، لیکن تفسیر کی تعلیم انہوں نے بڑی محنت سے حاصل کی تھی، بارہ برس کے سن میں وہ حافظ قرآن ہوگئے تھے، ابوبکر الہذالی کابیان ہے کہ جب تک وہ ایک سورۃ کی تفسیر و تاویل اورشان ِنزول وغیرہ سے پوری واقفیت نہ حاصل کرلیتے تھے، اس وقت تک آگے نہ بڑھتے تھے اس محنت نے ان کو قرآن کا بڑا عالم بنادیا تھا اوروہ تفسیر کا درس دیتے تھے۔

حدیث:

حدیث میں ان کے درجہ کا اندازہ حافظ ذہبی کے ان الفاظ سے ہوسکتا ہے کہ :وہ علامہ اور علم کے سمندروں میں تھے حدیث میں انہوں نے ان بزرگوں سے فیض پایاتھا جن میں سے اکثر اس فن کے اساطین اوررکن اعظم تھے؛چنانچہ صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ، انس بن مالکؓ، جابر بن معاویہؓ، معقل بن یسار، ابی بکرہؓ، عمران بن حصین اور جندب بجلیؓ سے براہ راست استفادہ کیا تھا اور عمر بن الخطابؓ، ابن کعبؓ، سعد بن عبادہؓ، عمار بن یاسر، ابو ہریرہؓ، ثوبان، عثمان بن ابی العاص اورمعقل بن سنان سے بالواسطہ مستفید ہوئے، صحابہ کے علاوہ اکابر تابعین کی ایک بڑٰ ی جماعت سے سماعِ حدیث کیا تھا۔ حضرت حسن بصری ؒ کی وفات:

یکم رجب 110ھ نواسی89 سال کی عمر میں بصرہ میں انتقال کیا۔ آپ کا مزار پُر انوار بصرہ(عراق) سے نو میل مغرب کی طرف مقام زبیر پر واقع ہے۔

خلفاء:

حضرت خواجہ حسن بصری کے مشهور خلفاء حضرت خواجہ ابو نصر حبیب عجمی اور حضرت شیخ عبدالواحد بن زید هیں۔

حضرت حسن بصری ؒ کے ملفوظات:

ایک دفعہ یونس بن عبید ؒ سے کہا گیا کہ آپ نے حسن بصری ؒجیسا عمل کرنے والا کوئی شخص دیکھا؟تو انہوں نے فرمایا ،بخدا! میں نے کسی کو اس شخص جیسی باتیں کرتا ہوا دیکھا تو نہیں ،تو پھر ا ن کے جیسا عمل کرنے والا کیا دیکھتا،سنو! ان کا وعظ دلوں کو رلاتا تھا جب کہ دوسرے لوگوں کا وعظ آنکھوں کو بھی نہیں رلا پاتا۔سل

حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نے فرمایا ،جو عالم اپنے علم پر عمل کرتا ہے وہ یقیناً ولی اللہ ہے ۔

حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جس نے محفل میں اپنے آپ کو برا کہا اس نے اپنی تعریف کی ،اور یہ ریا کی علامت ہے ۔س

حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ،لوگ اعمال کے بدلے جنت اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور نیت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ،لوگ اعمال کے بدلے جنت اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور نیت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں ،اہل علم زمانہ کے چراغ ہیں اور ہر عالم اپنے زمانہ کی روشنی ہے کہ اس کے علم سے اس کے اقران روشنی حاصل کرتے ہیں۔اگر عالم نہ ہوتے تو لوگ کوڑے کڑکٹ کی طرح ہوتے ۔

عبد الواحد بن زید ؒ فرماتے ہیں ،حسن بصری ؒ کو جو مرتبہ حاصل ہوا ہے وہ اس لئے ملا ہے یہ جو لوگوں کو کہتے تھے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے اور جس بات سے ان کو روکتے تھے سب سے بڑھ کر اس سے دور بھاگتے تھے ۔کہتے ہیں ہم نے حسن بصری ؒ سے بڑھ کر کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں ، فاسق کی مخالفت کرنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قرب کا سبب ہے ۔ میں کہتا ہو ں ، اس سے مرا د اس کے ساتھ دل میں رنجیدہ ہونا ہےاور ظاہراً مخالفت منا سب نہیں کیو نکہ اس کو راہ راست پر لانا چاہیے ۔ بغض صرف اس کی صفات فسق کے ساتھ خاص ہو نا چاہیے ،کیو نکہ یہ ہر خدا کی طرف بُلانے والے کی گمشدہ مطلوب چیز ہے ۔ اس میں غو ر کرو ۔واللہ اعلم ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں ، جو دعویٰ کرے کہ وہ کسی بندے سےمحض اللہ کےلیے محبت کرتا ہے اورپھر اللہ تعالیٰ کی نا فر مانی پر اس سے نا را ض نہ ہو تو وہ جھو ٹا ہے ۔ محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں ، جو کسی کافر سے اس کی کسی خوبی کے با عث محبت کرے تو اللہ اس کو اجر دیتا ہے ۔ ایسے ہی اگر کسی نیک آدمی سے کسی بُرائی کے سبب دشمنی رکھے تو اللہ اسے بھی اجر دے گا ۔مالک بن دینا ر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اگر کتا آبیٹھتا تو اسے نہ دھتکا ر تے اور فر ماتے ، بُرےدوست سے یہ اچھا ہے ۔ آدمی کے لیے بُراہو نے کو یہی کا فی ہے کہ وہ خو د نیک نہ ہو ، پھرنیک لوگو ں کو بُرا کہے ۔لہ

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو جو شخص دیکھتا  اسے خیال گزرتا کہ ابھی کسی مصیبت سے نکلے ہیں کیو نکہ اکثر ان پر رنج و خو ف طاری رہتا ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، گنا ہ میں غر ق ہونے کی علامت روزہ اور شب بیداری پر دل خو ش نہ ہونا ہے ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےمجرموں کو دنیا  اور آخرت میں ذلیل کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ انسان رات کو کوئی بھی گنا ہ کرلے صبح کو اس کے چہرے پر ذلت ہو تی ہے ۔ ع

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں ، ہمارے سلف کا یہ حال تھا  کہ جو را ت میں تلاوت قر آن مجید کرے اس کےچہرے سے لو گ پہچان لیتے تھے اس کے تغیر رنگ اور زردی چہر ہ اور لاغری کی وجہ سے ۔ آج کل لوگ ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک را ت میں سارا قر آن مجید ختم کرتے ہیں لیکن ان کےچہروں سےمعلو م نہیں ہو تا  ۔ گویا انہوں نے صرف اپنی چادر کا بو جھ اٹھایا تھا۔الی

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب کسی کےپاس جان کنی کے وقت جاتے تو کئی دن تک کھا ناپینا چھوڑ دیتے اور گریہ وزاری کرتے اور فر ماتے ، تین باتیں مو من کوبھولنی مناسب نہیں ، اول دنیا ، دوم اس کےحالات کی خرابی ، سوم موت ۔

 حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں ، چار چیزیں شقاوت سے ہیں ۔ کثرت عیال ، قلت مال ، بُرا پڑوسی ، خائن عورت ۔ حدیث شریف میں آیا ہے، اگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ عورت کوحیا اور شرم سے پردہ نہ دیتا تو عورت مٹی کی ایک مٹھی کے برا بر نہ ہو تی ۔ہ

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب یہ حد یث سنتے  کہ دوز خ میں سے سب کے بعد نکلنے والا شخص ہزا ر سا ل کے بعد نکلے گا ، تو فر ماتے ، کاش یہ آد می میں ہی ہوں ، کسی نے ا س کے متعلق کچھ کہا تو فر مانے لگے ، اس کے لیے دوزخ سے نکلنے کا وعد ہ تو ہے ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں ، جو تہجد کو چھو ڑتا ہے وہ کسی نہ کسی گنا ہ کے با عث چھو ڑتا ہے ۔ پس ہر رو ز غروب کے وقت تم اپنے نفسوں کی جانچ پڑتال کرلیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلیا کر و تاکہ رات کو تہجد کی نما ز ادا کرسکو۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں ،کہ اللہ تعالیٰ نے آیت  ’’ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ‘‘(یعنی تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یا د کروں گا ) سے ہم پر آسا نی کردی ہے کہ ذکر الہٰی کے لیے کو ئی جگہ مقر ر نہیں فر مائی ۔ اگر اللہ سبحا نہ وتعالیٰ  کوئی جگہ مخصو ص کردیتا  تو تمہیں وہا ں  جانا ضروری ہوتا ، خو اہ ایک صدی کے مسا فت کا را ستہ ہو تا ۔ جیساکہ کعبہ میں لوگوں کو بلا یا ہے ۔ پس اسی کی تعریف اور اسی کی احسا ن مندی ہے ۔قا

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں، ہم نے ایسے لو گ دیکھے ہیں جو دنیا کو اپنے پاس امانت خیال کرتےہیں کہ اسی مالک کو واپس دینا ہے، ان کا اس میں ذرا بھی مالکانہ اختیا ر نہیں ہے، اس لیے آخرت میں ہلکے پھلکے گئےد

کسی آدمی نے حسن بصری ؒسے کہا ، آپ مجھے نصیحت کریں  ، آپ نے فرمایا ، جہاں کہیں ہو اللہ کے حکم کی تعظیم کر ، اللہ تیری تعظیم  کرے گا۔ ریہ

ایک دفعہ حسن بصری ؒنے ایک شخص کو سنا کہہ رہا تھا"المرء مع من احب"یعنی جو جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رہے گا ۔آپ نے فرمایا اے دوست!تجھے یہ با ت دھو کہ نہ دے کیو نکہ تو اس وقت نیکو ں کے سا تھ نہ ہو  گا جب تک ان کے جیسے اعمال نہ کرےگا چنانچہ یہود اور نصاریٰ اپنے انبیاء سے محبت کرتے تھےلیکن ان کے ساتھ جنت میں نہ جائیں گےکیونکہ اعما ل میں ان کے مخالف ہیں ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:اگر میں اہل بدر کے ستر آدمی کی ملاقات کرتا تو میرا خیال ہے کہ اگر وہ تمہیں دیکھیں تو کہیں کہ یہ دیوانے ہیں  ۔اور جو کا م آج کل لوگ کرتے ہیں وہ دیکھ لیں تو کہیں کہ یہ لوگ قیا مت  پر ایما ن نہیں رکھتے ، یا ان کا قیا مت میں کچھ حصہ نہیں  ۔ان میں سے کوئی بھی گھر سے نہ نکلتے مگر صرف جما عت اور وضو وغیرہ کے لئے مسجد میں  جا تے ۔را

         حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ علما ء پر اس وقت تک اللہ کی رحمت رہی جب تک انہوں نے امراء کی طرف میلان نہیں کیا ، اور جب وہ امراء کی طرف ما ئل ہو ئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ  کھینچ لیا ، اور ان پر ایسے ظالمو ں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو سخت تکلیفیں دیں اور ان کے دلوں میں رُ عب بھر دیا ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو قبر ستا ن میں کھا تے ہو ئے دیکھا  تو اس سے خفا ہو ئے اور کہا  ، تو منا فق ہے ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ہم نے ایسے لوگو ں کو دیکھا ہے کہ جتنا  ان کو اللہ تعا لیٰ کی ذات کی طرف سے انعام و اکرام ہو تا اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حالت تھی کہ جو شخص ان کو دیکھتا تو ان کے حزن وغم کی کیفیت دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ ابھی ان پر کو ئی مصیبت نا زل ہو ئی ہے ۔ یہی حالت ان کے دوستوں کی بھی تھی ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر انسان کے سر پر افلاس، مرض اور موت نہ ہوتی تو شدت کبر کے با عث کبھی سر تسلیم ِ خم نہ کرتا اور باوجو د ان کے پھر گناہ کا مرتکب ہو تا ۔

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کوجب معلوم ہوتا کہ میری کسی نے غیبت کی تو آپ اس کی طرف تحفہ ارسال کرتے اور قا صد کی زبانی کہلا بھیجتے، میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے پاس اپنی نیکیوں کا تحفہ ارسال کیا ہے وہ یقیناً میرے تحفہ سے قیمتی ہوگا۔ش

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں: جو شخص تیرے پاس چغلی کرے وہ دوسرے کے پاس تیری چغلی بھی ضرورکرےگا اور جو ایسی صفات سے تیری تعریف کرے جو تجھ میں موجو د نہیں تو وہ ایسی ہی باتوں سےتیر ی مذمت بھی کرے گا جو تجھ میں موجود نہ ہو ۔ منصور بن زاذان رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں جب تک کو ئی میرے پا س بیٹھا رہتا ہے میں اس کے ساتھ گویا جہا د کرتا رہتا ہوں،کیونکہ وہ میرے دوست کو میرے نز دیک دشمن بنا دیتا ہے، یا کسی کی کی ہوئی غیبت مجھے بتلا دیتا ہے جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔

حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے مروت کے معنی دریافت کیے گئے، تو آپ نے فر مایا جس امر سے آدمی اللہ کے نزدیک معیوب سمجھا جائے اس کے ترک کرنے کا نام مروت ہے۔دی

مروی ہے کہ ایک شخص بصرہ آیا اور دریافت کرنے لگا کہ شہر کا سردار کون ہے؟ کسی نے اس سے کہا، حسن بن ابی الحسن بصری، اس نے کہا وہ کیو نکر سردار بنا؟ لوگوں نے کہا، لوگوں کے پاس جو مال وغیرہ ہے اس سے وہ مستغنی ہیں اور علم اور دین جو اُن کے پاس ہے اس کی وجہ سے لوگ اُن کے محتاج ہیں ، تو وہ شخص بولا: واہ واہ! بے شک یہی سردار ہےہ

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتےہیں: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو نعمت دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ عبا داللہ سے کیسا بر تا ؤ کر تا ہے، پس اگر جو مانگے انہیں دے دے تو خیر ، ورنہ نعمت چھین لیتا ہے۔

حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فر ماتےہیں: ہزار شخص کی دوستی کو ایک شخص کےعداوت کے بدلے نہ خرید۔ اے دوست! اس کویادرکھ اور لوگوں کی عداوت سےبچ، خصوصاً زود رنج لوگوں کی عداوت سے جو شخص تیرے شہر میں آکر شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ضرور تیری زندگی کو بد مزہ کردے گا اگر چہ تو ولی ہو، کیونکہ ولی ہو نے کی حالت میں بشریت کی رگ کمزور ہو جاتی ہے کٹ نہیں جاتی، کسی نےکہا، جو عداوت کوحقیر جانے تو اس کی عقل کی کمزوری ہے ۔

حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فر ماتےہیں، میں نے ایک دفعہ ایک آدمی کو لوگوں سے علیحدہ بیٹھا ہو ا دیکھا تو میں نے پوچھا، تم لوگوں سے میل جو ل کیو ں نہیں کرتے؟ اس نے جو ا ب دیا، میں ایسی بات میں لگاہو ں جو اس سے اہم ہے، میں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا، میں ہر صبح انعام اور گناہ کے درمیان ہو تاہو ں پس نعمت کے شکر اور گناہ سے استغفار میں مشغول رہتا ہو ں، میں نے کہا تو حسن سے زیادہ سمجھ دار ہے، اے برادر! اکیلا رہ۔ب

حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے کہا گیا تم اس شخص کی نسبت کیا کہتے ہو جو تو بہ کرے اور تو ڑدے، پھر کرے اور تو ڑ دے اسی طرح کرتا رہے، آپ نے فر مایا میں اسے مومن ہی خیال کروں گا کیو نکہ یہ کا م مومن ہی کرتا ہے۔ م

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں: میں نے ایسے علما ء دیکھے ہیں اور ایسے لوگوں کی صحبت میں رہا ہوں جو دنیا کے حصول سے خوش نہ ہو تے اور نہ اس کے چلے جانے سے افسوس کھاتے، ان کی نظر میں دنیا کی مٹی سے بھی کم حیثیت ہوتی، ان میں سے بعض اپنی تمام عمر گزار دیتے نہ ان کاکپڑ ا رنگایا جاتا اور نہ وہ کسی کو اپنے گھر میں کھا نا پکا نے کو کہتے ، اور جب وہ سوتے اپنے تخت پر کپڑا نہ بچھاتے اور کتا ب اللہ اور سنت نبی کودستور العمل بنا تے اور جب رات ہو تی تو اپنے قدموں پر کھڑے ہو جاتے اور نیچے منہ کرکے روتے اور آنسو ان کے چہرے پر بہتے کہ ان کے پاس آنے والے خیال کرتے کہ وضو کا پانی ہے۔ ع

ایک دفعہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ ریاضت کرنے والے خوبصورت کیوں ہو تے ہیں؟ آپ نے فرمایا:اس لیے کہ وہ اللہ کے ساتھ خلوت کرتے ہیں تو وہ انہیں اپنے نو ر سے حصہ دیتا ہے۔ شعرانہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہم نشینوں سے فر مایا کرتے کہ اپنے دلوں کے لیے غم اور محبت الٰہی لازم جانو، پھر جب کوئی مرجائے تو پرواہ نہ کرے۔ش

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تھی کہ جب ایک کرتہ پہنتے تو جب تک وہ پرانا نہ ہوجاتا تو نہ اُتارتے ۔ ایک دفعہ کسی نے دریا فت کیا کہ آپ اپنا کرتہ کیوں نہیں دھوتے؟ تو ارشاد فر ما یا کہ موت اس سے جلد آنے والی ہے۔جر

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں: اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ جس سے اللہ ناراض ہو اس سے وہ بھی ناخوش ہو، نیز فر ماتے ہیں: جو اللہ کی محبت کا مدعی ہو اور پھر دنیا سے محبت رکھے وہ جھوٹا ہے کیو نکہ دنیا اللہ کے نزدیک مغبوض ہے۔

کسی نے حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے ایک شخص کی نسبت سوال کیا جو کسب کا محتا ج ہو کہ اگر وہ جماعت کے ساتھ نما ز پڑھنے کو جائے تو اسے اس دن سوال کی حاجت ہو گی، آپ نے فر مایا وہ مزدوری کرے اور نماز تنہا پڑھ لے ۔ہ

 


([1])الأعلام للزركلي (2/ 226)

([2])لسان الميزان (7/ 197)